قرآن و معارف

قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کی اطاعت 2

جمعه, ۱۶ خرداد ۱۳۹۹، ۱۰:۴۷ ق.ظ

والدین کی اطاعت کے دنیوی اور اخروی فائدے

والدین کی اطاعت کےبہت سے دنیوی اور اخروی فوائد ہیں کہ جن میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 

 

  1. والدین کی طرف محبت بھری نگاہ  کرنا عبادت ہے

 رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہیں:" نظر الولد الی والدیه حباً لهما عباده"[1]  بچے کا اپنے والدین کو محبت بھری نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے۔

روایات میں ہے کہ چند چیزوں کی طرف نگاہ کرنا، عبادت شمار ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک قرآن مجید ہے کہ جس کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے اور اس کے علاوہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ ایک شخص نے خانہ کعبہ کے پاس حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے پوچھا: حضرت علی(علیہ السلام) کے چہرے کی طرف  زیادہ کیوں دیکھتے ہو؟ تو فرمایا:  النّظر الی علی بن أبی طالب عباده، و النّظر الی الوالدین برأفۃ و رحمۃ عباده.حضرت علی(علیہ السلام) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا عبادت ہے؛ اسی طرح والدین کی طرف محبت اور رحمت کی نظر کرنا ، عبادت ہے۔

  1. والدین کے ساتھ نیکی،  اسلام کی راہ میں جہاد ہے

پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله نے فرمایا: "برّ الوالدین یجزی عن الجهاد"[2]والدین سے نیکی کرنا جہاد سے بھی کفایت کرتا ہے۔ (جہاد  کے برابر ہے)۔

  1. طویل عمر  اور کثرت رزق کا باعث ہے

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا: انّه ربّما کان قد بقی من عمر الانسان ثلث سنین ثم انّه یحسن الی والدیه و یصل أرحامه فیؤخّره الله الی ثلثین سنه و انّ منهم من یبقی من عمره ثلاثون سنه ثم انّه یقطع أرحامه أو یعق والدیه فیمحو الله سبحانه الثلاثین و یثبت مکانها ثلاث سنین، و قال رسول الله صلی الله علیه و آله : رأیت فی المنام رجلا قد اتاه ملک الموت لقبض روحه فجاء برّه بوالدیه فمنعه منه.[3]

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کی عمر ، تین سال باقی رہ جاتی ہے ؛ لیکن اس کا والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کرنے  کی وجہ سے  خدا تعالی اس کی عمر کو تیس سال میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کے برعکس، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی عمر تیس سال باقی رہتی ہوتی ہے ؛ لیکن قطع رحمی اور والدین کو اذیت و آزار دینے کی وجہ سے اس کی یہ تیس سالہ عمر تین سال میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خواب میں دیکھا کہ ملک الموت ، قبض روح کے لئے ایک شخص کے پاس آیا ؛ لیکن والدین کے ساتھ نیکی  نے اس کی زندگی کوبچا لیا۔

اس کے علاوہ ایک اور حدیث میں بیا ن ہوا ہے کہ : عن حنان بن سدیر قال: کنا عند ابی عبد الله(ع) و فینا میسر فذکروا صلة القرابة فقال ابو عبد الله ع):یا میسر قد حضر اجلک غیر مرة و لا مرتین، کل ذلک یؤخر الله اجلک، لصلتک قرابتک، و ان کنت ترید ان یزاد فی عمرک فبر شیخیک یعنی ابویک. [4]

حنان ابن سدیر بیان کرتا ہے کہ : ہم امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور میسر نامی شخص بھی ہمارے ساتھ تھا ، صلہ رحمی کی بات چلی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے میسر  کئی بار تمہاری موت آچکی تھی ہر بار خدا وند عالم نے تمہارے صلہ رحمی کی وجہ سے موت کو ٹال دیا ہے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خدا وند عالم تمہاری عمر میں اضافہ کر ے تو تم اپنے دونوں بزرگوں  یعنی والدین سے نیکی کیا کرو ۔

 

 

  1. والدین کے ساتھ نیکی، خوشگوار زندگی  کا باعث بنتی ہے

معصوم فرماتے ہیں:

 لذّه العیش فی البرّ بالوالدین[5]خوشگوار زندگی کی لذت ، ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے میں مضمر ہے۔

وضاحت: وہ لوگ کہ جو اپنی اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں اپنے والدین کے ساتھ شفیق اور مہربان    نہیں  ہوتے   بلکہ اس کے برعکس  غیض و غضب سے پیش آتے ہیں، صرف یہ نہیں کہ آخرت میں عذاب پروردگار کے مستحق قرار پائیں گے بلکہ وہ دنیا کی کسی لذت  اور خوشی سے بھی بہرہ مند نہیں ہوں گے۔ ہم اپنے زمانے میں  اس بات کے شاہد ہیں کہ جو لوگ  اپنے والدین کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ پیش نہیں آتے ، کس طرح  ان کے گھر  تباہ و برباد  ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ زندگی میں مصیبتوں کا شکار رہتے ہیں!  پس جو لوگ اس دنیا میں  پرسکون اور خوشگوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی، محبت اور شفقت کا سلوک کریں، تاکہ   مسرت اور خوشی سے بھرپور  زندگی کی لذت حاصل کر سکیں۔

  1. موت میں آسانی کا باعث ہے

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"من أحبّ أن یخفّف اللّه عزّ و جّل عنه سکرات الموت فلیکن بوالدیه بارّا"[6]  جو شخص سکرات موت کی تلخی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے والدین سے نیکی کے ساتھ پیش آئے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے:

 عن ابی عبد الله(ع):ان رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) حضر شابا عند وفاته فقال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) له:قل: لا اله الا الله،قال(ع): فاعتقل لسانه مرارا فقال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) لامراة عند راسه: هل لهذا ام؟قالت: نعم انا امه،قال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم): افساخطة انت علیه؟قالت: نعم ما کلمته منذ ست حجج،قال(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) لها: ارضی عنه،قالت: رضی الله عنه برضاک یا رسول الله فقال له رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم): قال: لا اله الا الله قال(ع): فقالها... ثم طفی...[7]   

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ایک جوان کےمرتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اسکےسراہنے پہنچے اور فرمایا : لا الہ الا اللّہ پڑھو وہ جوان نہ پڑھ سکا ( گونگا ہو گیا ) چند بار تکرار کیا پھر بھی نہ پڑھ سکا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس عورت سے سوال کیا جو اس کےپاس بیٹھی تھی کیا اسکی ماں زندہ ہے؟ عورت نے جواب دیا ،جی ہاں میں اس کی ماں ہوں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کیا تم اس جوان سے ناراض ہو؟ عورت نے جواب دیا، جی میں نے چھے سال سے بات نہیں کی  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس سے کہا کہ تم اس سے راضی ہو جا ، عورت نے کہا یا رسول اللّہ خدا اس سے راضی ہوں میں آپ کی خاطر اس سے راضی ہوئی ہوں ، اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا پڑھو لا الہ اللّہ اس وقت جوان کی زبان سے لا الہ اللّہ جاری ہوا اور کچھ دیر کےبعد وہ مر گیا۔

  1. جہنم کی آگ سے سپر ہے

روایت میں آیا ہے :

"انّ أبی قد کبر جداً و ضعف فنحن نحمله اذا اراد الحاجه فقال ان استطعت أن تلی ذلک منه فافعل و لقّمه بیدک فانّه جنۃ لک غدا"[8]

ایک شخص نے امام صادق(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی :( میرا باپ اتنا  بوڑھا اور ناتوان ہو چکا ہے کہ قضاء حاجت کے لئے  ہم اسے اپنے کندھوں  پر اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: اگر تو  قدرت رکھتا ہے تو  تم خود اس کام کو انجام دو اور خود تم اس کے منہ میں  لقمہ دو چونکہ تیرا یہ عمل، کل روزقیامت جہنم سے سپر بنے گا [ اور تجھے بہشت لے جائے گا]

 

 

  1. جو والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہیں، ان کے بچے بھی ان کے ساتھ نیکی سے پیش آئیں گے۔

امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"برّوا أبائکم یبرّ کم أبناؤکم"[9] تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ ،  تمھاری اولاد تم سے نیکی کا برتاؤ کرے گی۔

  1. والدین سے نیکی کرنے والا ، مورد رحمت پروردگار قرار پاتا ہے

پیامبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ فرماتے ہیں۔ "رحم الله امرءً اعان والده علی برّه"[10] خدا رحمت کرے اس شخص پر کہ جو  باپ کے ساتھ نیکی کے  کاموں میں ہاتھ بٹائے۔

  1. والد کی دعا  اپنی اولاد کے بارے میں رد نہیں ہوتی

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"ثلاث دعوات لایحجبن عن الله تعالی: دعاء الوالد لولده اذا برّه"[11]  تین دعائیں کبھی رد نہیں ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب فرزند اپنے والد کے ساتھ نیکی کرے اور اس کا والد اس کے لئے دعاء خیر کرے۔

  1. معرفت پروردگار کا باعث بنتی ہے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"برّ الوالدین من حسن معرفه العبد باللّه" [12] ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، انسان کے عارف باللہ ہونے کی علامات میں سے ہے۔

  1. موت میں تاخیر کا باعث بنتی ہے

رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہیں:

" رأیت بالمنام رجلاً من أمّتی قد أتاه ملک الموت لقبض روحه، فجاء برّه بوالدیه فمنعه منه"[13]

میں نے خواب میں اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح کو قبض کرنے کے لئے آیا ہوا ہے، لیکن اسی اثناء میں والدین کے ساتھ کی گئی نیکی نے آ کر اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔

  1. والدین سے نیکی، حج کا ثواب رکھتی ہے

رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہیں:

" ما من ولد بارّ ینظر الی والدیه نظر رحمه الاّ کان له بکلّ نظره حجّه مبروره؛ فقالوا: یا رسول الله! و ان نظر فی کلّ یوم مأه» قال: نعم، الله أکبر و أطیب" [14]

جو  شخص اپنے والدین کی طرف  شفقت بھری نظر  سے دیکھے تو  اللہ تعالی اسے  ہر نگاہ کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب دیتا ہے، اصحاب نے پوچھا: یا رسول اللہ!  اگر وہ شخص ہر روز سو بار نگاہ کرے تو ؟ فرمایا: تب بھی،  چونکہ خدا تعالی بزرگ  اور کریم   ہے ( ثواب عطا کرے گا)۔

  1. والدین سے نیکی کرنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا

امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں:

" فلیکن بوالدیه بارّاً فاذا کان کذلک لم یصبه فی حیاته فقرا أبداً"[15]

۔۔۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ سکرات موت کی تلخی اس پر آسان ہو تو اسے چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرے۔ اگر ایسا کرے گا  تو اپنی دنیوی زندگی میں کبھی فقیر نہیں ہو گا۔

  1. قیامت کے دن، نیک لوگوں کےسردار  ہوں گے

روایت میں آیا ہے : سید الأبرار یوم القیامه رجل برّ والدیه[16]  جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور خوش خلقی سے پیش آتے ہیں وہ قیامت کے دن،  نیک لوگوں کے سردار ہوں گے۔

وضاحت:  یقینا یہ شخص قیامت کے دن نیکوکار ہے اور دنیوی زندگی میں بھی خوشبختی اور سعادت کا موجب ہے۔

  1. والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا، عرش الہی کے زیر سایہ ہوگا

ایک روات میں آیا ہے: انّ موسی یناجی ربّه اذ رأی رجلاً تحت ظلّ العرش فقال: «یا ربّ من هذا الّذی قد أظلّه عرشک؟»، قال: هذا کان بارّاً بوالدیه۔[17]

حضرت موسی علیه السلام کوہ طور پر اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات کرنے کے لئے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں آپ نے عرش خدا کے زیر سایہ ایک آدمی کا مشاہدہ کیا۔ عرض کی : اے پروردگار! یہ کون ہے کہ جو تیرے عرش کے زیر سایہ رہتا ہے؟ آواز  آئی ۔  یہ وہ شخص ہے کہ جو اپنے والدین کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آتا تھا۔

 

 

والدین کی نافرمانی کے دنیوی اور اخروی  نقصانات

والدین کی نافرمانی اور حکم عدولی کے نقصانات نہ صرف  آخرت کی زندگی  تک محدود  ہیں بلکہ دنیا میں بھی اس گناہ کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

  1. عاق والدین جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: 

اِیَّاکُمْ وَعُقُوْقِ الْوَلِدَیْنِ فَاِنَّ رِیْحَ الجَنَّةِ یُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفِ عَامٍ وَلَا یَجِدُ ھَا عَاقٍ وَّلَاقَاطِعُرَحِمٍ۔[18]
"خبردار! والدین کی ناراضگی سے پرہیز کرو ۔ بے شک بہشت کی خوشبو ایک ہزار سال دور کے فاصلے سے سونگھی جا سکتی ہے  لیکن ماں باپ کے عاق اور رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرنے والا جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکے گا۔" 

  1. غضب پروردگار کا باعث بنتی ہے

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی سے روایت ہے:  مَنْ اَسْخَطَ وَالِدَیْہِ فَقَد اَسْخَطَ اللّٰہَ وَمَنْ اَغْضَبَھُمَا فَقَدْاَغْضَبَاللّٰہَ۔[19]
"جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا تو گویا اس نے اللہ کو ناراض کیا ۔ اور جس نے ان دونوں کو غضب ناک کیا تو اس نے اللہ کو غضب ناک کیا۔" 

 

  1. اذیت رسول  خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)  کا باعث بنتی ہے

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: مَنْ آذیٰ وَالِدَیْہِ فَقَدْآذَانِی وَمَنْ آذَانِیْ آذَیٰ اللّٰہَ وَمَنْ آذیٰ اللّٰہَ فَھُوَ مَلْعُوْنٌ۔[20]
"جس کسی نے اپنے والدین کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی پس وہ ملعون ہے۔" 

  1. کوئی عمل صالح قبول نہیں ہوتا

  آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے: وَلیَعْمَل الْعَاقُ مَاشآءَ اَنْ یَعْمَلَ فَلَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ  [21]  "ماں باپ کو جس نے ناراض کیا پھر وہ جتنا بھی چاہے عمل کرے بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔  

  1. والدین کا نا فرمان ملعون ہے  


حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے: مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَرَبَ وَالِدَیْہِ، مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ ۔[22]

"ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو مارا۔ ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا ہو۔"  

  1. عاق والدین،  نماز قبول نہیں ہوتی

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ: مَنْ نَظَرَاِلٰی اَبَوَیْہِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَّھُمَا ظَالِمَانِ لَہ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلوٰةً ۔[23]"جو کوئی اپنے والدین کی طرف غصے سے نظر کرے گا حالانکہ والدین اولاد کے حق میں ظالم ہوں پھر بھی اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔" 

  1. فرعون کے ساتھ جہنم میں ہو گا

  آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مزید ارشاد فرمایا: 

بَیْنَ الْاَنْبِیَاءِ وَالْبَاردَرَجَةٌ وَبَیْنَ الْعَاقِ وَالْفَرَاعِنَہِ دَرَکَةُ ۔[24] "والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بہشت میں پیغمبروں سے صرف ایک درجہ کے فرق پر ہو گا۔ اور والدین کا عاق شدہ جہنم میں فراعنہ سے صرف ایک درجہ نیچے ہو گا۔"  

  1. گدائی و بد نصیبی کا سبب

   مدینہٴ منورہ کے ایک دولت مند جوان کے ضعیف ماں باپ زندہ تھے۔ وہ جوان ان کے ساتھ کسی قسم کی نیکی نہیں کرتا تھا اور انہیں اپنی دولت سے محروم کیے ہوئے تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس جوان سے اس کا سب مال و دولت چھین لیا۔ وہ ناداری ، تنگ دستی اور بیماری میں مبتلا ہو  پریشانی  کی زندگی  اور بد نصیبی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا جو کوئی ماں باپ کو تکلیف پہنچاتا ہے اُسے اس جوان سے عبرت حاصل کر نی چاہیئے۔ 
دیکھو ! اس دنیا میں اس سے مال ودولت واپس لے لی گئی ، اس کی ثروت و بے نیازی فقیری میں اور صحت بیماری میں تبدیل ہو گئی۔ اس طرح جو درجہ اس کو بہشت میں حاصل ہونا تھا ، وہ ان گناہوں کے سبب اُس سے محروم ہو گیا۔ اس کی بجائے آتشِ جہنم اس کے لیے تیار کی گئی ۔ [25]

 

 

اولاد کے وظائف

اولاد کے وظائف کے بارے میں  معصومین (علیھم السلام)  کی بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں کہ ان میں سے چند ایک احادیث کو درج ذیل بیان کیا گیا ہے۔

  1. حسن سلوک

عن ابی ولاد الحناط قال: سالت ابا عبد الله(ع) عن قول الله:«و بالوالدین احسانا» فقال: الاحسان ان تحسن صحبتهما و لا تکلفهما ان یسالاک شیئا هما یحتاجان الیه.  [26]

ابی ولاد کہتے ہیں کہ: میں نے اس آیہ(و بالوالدین احسانا)  کا معنی امام صادق علیہ السلام سے پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: والدین سے نیکی کرنے کا معنی یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمہارا برتاو اچھا ہو اور انہیں کچھ مانگنے کے لئے محتاج نہ کرنا (ان کی درخواست سے پہلے پورا کرنا)

  1. مہر و محبت کا برتاؤ کرنا

قال ابو عبد الله(ع):لا تملا عینیک من النظر الیهما الا برحمة و رقة، و لا ترفع صوتک فوق اصواتهما، و لا یدیک فوق ایدیهما و لا تتقدم قدامهما.[27]

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں  :

 والدین کو مہر و محبت کی نظر کے بغیرنظر  نہ کرنااور اپنی آواز  ان کی آواز پر بلند نہ کرنا اور اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھ سے اوپر نہ رکھنا  اور ان سے آگے راستہ نہ چلنا۔

  1. والدین کی نیابت میں اعمال صالح بجالانا

قال ابو عبد الله(ع):ما یمنع الرجل منکم ان یبر والدیه حیین او میتین، یصلی عنهما و یتصدق عنهما و یحج عنهما و له مثل ذلک، فیزیده الله(عز و جل) ببره و صلاته خیراً کثیراً.[28]

کونسی چیز مانع ہے کہ انسان اپنے والدین سے نیکی کرے چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ ، اس طریقے سے نیکی کرے کہ والدین کی نیت سے نماز پڑھے ، صدقہ دے حج بجا لائے اور روزہ رکھے کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کا ثواب والدین کو پہنچے گا اور اس شخص کو بھی اسی مقدار ثواب دیا جائے گا ، اس کےعلاوہ خدا وند عالم اس شخص کو اسکی نیکی اور نماز کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ نیکی عطا کرے گا ۔

  1. برے والدین سے نیکی کرنا

عن ابی جعفر(ع) قال: ثلاث لم یجعل الله (عز و جل) لاحد فیهن رخصة اداء الامانة الی البر و الفاجر و الوفاء بالعهد للبر و الفاجر و بر الوالدین برین کانا او فاجرین.[29]

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہے :

تین ایسی چیزیں ہیں کہ جن کو خدا وند عالم نے ترک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے 1۔امانت کا واپس کرنا چاہے اچھا آدمی ہویا  فاسق۔2۔عھد کا پورا کرنا چاہے اچھا آدمی ہو یا برا۔3 ۔والدین کےساتھ اچھائی کرنا چاہے وہ اچھے ہوں یا برے۔

  1. مشرک والدین سے نیکی کا  برتاو کرنا

فیما کتب الرضا(ع) للمامون :بر الوالدین واجب، و ان کانا مشرکین و لا طاعة لهما فی معصیة الخالق.[30]

امام رضا (علیہ السلام )نے جو خط مامون کو لکھا  اس میں یہ بھی تھا کہ : ماں باپ سے نیکی کرنا لازم ہے اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہوں لیکن خدا کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرنا۔

والدین کی قبر کی زیارت کرنا

عن رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) قال: من زار قبر والدیه او احدهما فی کل جمعة مرة غفر الله له و کتب برا.[31]

جو شخص بھی ہر جمعہ کو ماں باپ یا ان میں سے ایک کی قبر کی زیارت کرے خدا اس کو بخش دے گا اور اس شمار کا نیک آدمیوں کیا جائے گا۔

 

  1. والدین کی نافرمانی سے بچنا

قال رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):ایاکم و عقوق الوالدین، فان ریح الجنة توجد من مسیرة الف عام و لا یجدها عاق و لا قاطع رحم. [32]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں  کہ: تم لوگ والدین کے عاق ہونے سے بچو کیونکہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت تک سونگھی جائے گی مگر عاق والدین اور قطع رحم کرنے والا اس سے محروم رہے گا ۔

  1. والدین کو حقارت سے  نہ دیکھنا

عن ابی عبد الله(ع) قال: لو علم الله شیئا ادنی من اف لنهی عنه، و هو من ادنی العقوق و من العقوق ان ینظر الرجل الی والدیه فیحد النظر الیهما.[33]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 اگر اف سے چھوٹی کوئی چیز ہوتی تو خدا اس سے روک لیتا  اور اف کہنا عاق کےمراتب میں سے کمترین مرتبہ ہے، اور عاق کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو غضب آلود نگاہ سے د یکھے۔

  1. نیکی سے پیش آنا

قال علی بن الحسین(ع):جاء رجل الی النبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) فقال: یا رسول الله ما من عمل قبیح الا قد عملته فهل لی توبة؟فقال له رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):فهل من والدیک احد حیّ؟قال: ابی قال: فاذهب فبره.قال: فلما ولی قال رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):لو کانت امه.[34]

امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا کہ: ایک مرد رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللّہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو میں نے انجام نہ دیا ہو ، کیا میں توبہ کر سکتا ہوں؟رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  )نے فرمایا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس مرد نے جواب دیا جی ہاں میرا باپ زندہ ہے، (پیامبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  )نے فرمایا: جا اور اس کےساتھ نیکی کر (تاکہ تمہارے گناہ بخش دئے جائیں ) جب وہ چلے گیا  تو پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کاش اگر اس کی ماں زندہ ہوتی! (یعنی اگر اسکی ماں زندہ ہوتی اور وہ اس سے نیکی کرتا  اس کے گناہ جلد بخش دیے جاتے)۔

  1. غضب آلود نگاہ سے دیکھنا

عن ابی عبد الله(ع) قال: من نظر الی ابویه نظر ماقت، و هما ظالمان له، لم یقبل الله له صلاة.[35]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھی نفرت کی نگاہ سے اپنے والدین کی طرف دیکھےاگرچہ انہوں نے ان پر ظلم ہی کیا ہو ، تو اس کی نماز خدا کی درگاہ میں قبول نہیں ہو گی۔

  1. والدین کو  خوش رکھنا

قال امیرالمؤمنین(ع):من احزن والدیه فقد عقهما[36] امیر المومنین نے فرمایا: جو بھی  اپنے والدین کو غمگین کرے، اس نے والدین کےحق کی رعایت نہیں کی ہے۔

  1. والدین سے بے ادبی سے پیش نہ آنا

عن ابی جعفر(ع) قال:ان ابی نظر الی رجل و معه ابنه یمشی و الابن متکی ء علی ذراع الاب، قال: فما کلمه ابی مقتا له حتی فارق الدنیا۔[37]

امام باقر علیہ السلام  فرماتے ہیں :

 میرے والد نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس کا بیٹا اس کےبازو پر تکیہ کئے چل رہا تھا (جب امام نے اس واقعہ  کو دیکھا تو ) اس بیٹے سے ناراض رہے اورامام علیہ السلام نے  مرتے دم تک اس سےبات نہیں کی ۔

 

 قرآن و حدیث کی روشنی میں اطاعت والدین کی حدود و قیود

قرآن کریم، والدین کی اطاعت کی حدو د بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛[38] اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے یعنی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور (یہ بھی کہ) اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنا جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے تو میں تمہیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

اگر تمھارے والدین تمھیں توحید کو ترک کرنے اور جہالت کی طرف  لے  جانا چاہیں  تو اس صورت میں ان کی نافرمانی ضروری ہے۔  کبھی کبھاروالدین کی طرف سے اس طرح کی تلاش اور دعوت  دلسوزی اور محبت  پر مبنی ہوتی ہے، اس لئے اس طرح کہتے ہیں: میرے بیٹے!اگر ہم فلاں طاغوت کی اطاعت نہ کریں تو اس صورت میں ہمارا کھانا پینا  اور رہن سہن خطرہ میں پڑ جائے گا، ہمارا مال و متاع اور عزت و آبرو اس وقت اس بات سے وابستہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اطاعت کریں اور یہ چیزیں بعض اوقات اولاد کی تحقیر کی صورت میں سامنے آتی  ہیں، مثلا ، والدین کہتے ہیں کہ تم اس بات کو نہیں سمجھتے، جو تم سے بڑی اور محترم شخصیات ہیں،  اسی طرح سے  ان کی   اطاعت اور  خدمت کرتے چلی  آ‏ئی ہیں ، اس طرح ان کی زندگی ہر خطرہ سے محفوظ رہی ہے۔  یا یہ کہا جاتا ہے ،یہ ہمارے خاندان اور قوم کا مسئلہ ہے کہ فلاں را ستہ کو اپناتے ہوئے فلاں کام انجام دیں۔

شہیددستغیب اس بارے میں لکھتے ہیں:

والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرماتِ الٰہی کے مقابل میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ مثلاً والدین،  اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہٴ لقمان کی پندرھویں آیت میں اس بات کی تصریح فرمائی ہے: وَاِنْ جَاھَدَکَ عَلٰے اَنْ یُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُعِطھُمَا"اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔"

یہ حدیث شریف اس آیت کریمہ کی تائید کرتی ہے:"  لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ"مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔" ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ واجب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔  اسی مخالفت کو عاق کہتے ہیں۔ مثلاً بیٹا غیر واجب سفرپر جانا چاہتا ہو لیکن والدین جانی و مالی ضرر کے اندیشے سے یا اس کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر جدائی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے سفر پر جانے سے منع کریں اور بیٹا منع کرنے کے باوجود سفر پر جائے تو اس صورت میں معصیت کا سفر ہوگا اور حرام ہوگا۔ ایسے سفر میں نماز و روزہ قضا نہیں ہو گا۔

مختصر یہ کہ ہر وہ مخالفت جو والدین کی ناراضگی ، رنجش اور اذیت کا سبب بن جائے، حرام ہے۔مگر یہ کہ ان کی اطاعت اولاد کے لیے ناقابل برداشت ہو یا دینی اور دنیوی ضرر کا موجب ہو۔ مثلاً والدین اولاد کو شادی کرنے سے منع کریں، جبکہ شادی کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہو یا عسر و حرج در پیش ہوتا ہو یا یہ کہ والدین بیٹے سے کہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو جبکہ یہ حکم دونوں میاں بیوی کے لیے نقصان کا باعث ہو۔ ایسی صورت میں والدین کی اطاعت واجب نہیں لیکن ایسے امور جن میں والدین مخالفت کے باوجود ناراض نہ ہوتے ہوں اور ان کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی ہو، ایسے موقعوں پر مخالفت کا حرام ہونا یا اطاعت کا واجب ہونا میرے علم میں نہیں ہے۔ بہتر ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ تا حد امکان ان اوامر کو بجا لائیں اور مخالفت سے پرہیز کریں۔ خصوصاً جبکہ والدین اولاد کی مصلحت ملحوظ خاطر رکھ کر امر و نہی کریں اور اس میں ان کی ذاتی غرض نہ ہو۔  ۔ [39]

مناقب میں  روایت ہے کہ ایک دن امام حسین (ع) کے پاس سے عبد الرحمن بن عمرو بن عاص گذرا،  تو اس نے  لوگوں سے کہا:جو بھی اس شخص کو دیکھنا چاہے کہ جو میرے نزدیک تمام اہل آسمان اور اہل زمین سے محبوب ترین ہے،  وہ اس شخص کو دیکھے، اگرچہ میں جنگ صفین کے بعد  سے اس کے ساتھ ہمکلام نہیں ہوا ۔ابو سعید خدری اسے لے کر  آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام حسین (ع) نے اسے فرمایا:" آیا تو جانتا تھا کہ میں اہل آسمان کے نزدیک محبوب ترین ہوں؟!اس کے باوجود بھی تم نے جنگ صفین میں میرے باپ پر تلوار کھینچی؟! خدا کی قسم! میرا باپ میرے سے بہتر تھا، عبد الرحمان نے عذر خواہی کی اور کہا: آخر کیا کرتا چونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)نے مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے باپ کی  اطاعت کرنا۔ حضرت  نے فرمایا:" آیا تم نے فرمان خدا نہیں سنا ہے کہ فرمایا:" وَ إِنْ جَاهَدَاکَ عَلَى أَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا"[40]،"اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔"  اس کے علاوہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)  کا فرمان نہیں سنا:" (ماں باپ یا جس کسی کی اطاعت تم پر واجب ہے  وہ)  اطاعت  پسندیدہ ہونی چاہیے اور وہ اطاعت کہ جس میں نافرمانی ہو وہ  پسندیدہ نہیں ہے، پھر امام حسین (ع) نے اضافہ فرمایا: آیا یہ  فرمان نہیں سنا : " لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِق "مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔[41]

والدین کی امر و نہی میں اختلاف کا حل

جب کبھی والدین کے احکام میں تضاد واقع ہو جائے مثلاً باپ کہے کہ فلاں کام کرو، ماں کہے کہ وہ کام نہ کرو تو ایسی صورت میں کوشش کی جائے کہ دونوں کو راضی رکھا جا سکے اور اگر کوئی دونوں کو راضی نہ کر سکے تو ماں کی خوشنودی کو ترجیح دے۔ چونکہ ابتدائے خلقت میں باپ سے پہلے ماں کے حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ ماں زیادہ تکالیف سہتی ہے۔ خصوصاً ایّامِ حمل، وضعِ حمل اور دودھ پلانے کی زحمات ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ ماں اس لیے بھی زیادہ نیکی کا استحقاق رکھتی ہے کہ عورت پیدائشی طور پر مرد کی نسبت نازک مزاج اور احساساتی  ہوئی ہے۔ وہ اولاد کی معمولی سی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، بیتاب ہو جاتی ہے مامتا اُسے بے قابو کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس باپ کی عقل و ہوش مضبوط اور مزاج سنجیدہ ہوتا ہے وہ اولاد کی تکلیف سے کم متاثر ہوتا ہے۔ باپ احساس کر لیتا ہے کہ بیٹا میری مخالفت ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ ماں کی خاطر داری کی بنا پر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ مخالفت سے ناراض نہیں ہوتا۔[42]

 

نتیجہ

  ہمارا وجود والدین کی بدولت ہے اور ہماری اولاد کا وجود ہمارے وجود سے پیوستہ ہے والدین کےساتھ ہمارا سلوک اور انکا احترام اور نیکی کرنا اس بات کا موجب بنتا ہے کہ آیندہ ہماری اولاد بھی حق شناس اورقدرداں ہوں ہماری اولا دہمارے ساتھ وہی سلوک اختیار کرے گی جس طرح ہم اپنے والدین سے کیا کریں گے ۔ جس طرح خدا کا حق اداکرنا اور اسکی نعمتوں کا شکر کرنا ہماری توانائی سے باہر ہے اسی طرح والدین کاحق ادا کرنا اور ان کی زحمات کی قدردانی کرنا ایک مشکل کام ہے صرف ان کے سامنے انکساری کےساتھ پہلو جھکائے رکھنا اور تواضع اور فروتنی کے پر کو ان دو فرشتوں کے لئے بچھائے رکھنا ہمارے اختیار میں ہے۔

 اخلاق اور شرافت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دو گوہروں  کی پاسداری کریں اور  ان کی حیات میں احسان اور نیکی کریں اور  ان کی وفات کے بعد صدقات اور نیک کام سے یاد کیا کریں ۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ والدین کے متعلق اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور خصوصاً  ان کے مقام و مرتبہ کے متعلق جو احکامات اور فرمودات معصومین (علیھم السلام ) ہیں ، انہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مختلف پروگراموں کے ذریعے عام کرے اورمعاشرے کے تمام طبقات اس معاملے میں اہم کردار اداکریں تاکہ مسلم معاشرہ میں والدین اور بزرگوں کو ان کا کھویا ہوا مقام مل سکے۔

 

 فہرست مصادر

  1. . حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیر نور الثقلین، اسماعیلیان، قم، ۱۴۱۵ ه ق.
  2. . شیخ محمد حسن نجفی، جواهر الکلام، جامعه مدرسین، قم، ۱۴۱۷ ه ق ـ ضیاء الدین عراقی، تعلیقه علی العروه، جامعه مدرسین، قم.
  3. . طباطبایی، محمد حسین،  ترجمه تفسیر المیزان، دفتر انتشارات اسلامی، قم ، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ ه.ش.
  4.  ابن شعبه، حسن بن علی، تحف العقول، مترجم احمد جنتی، امیر کبیر، تهران، ۱۳۸۲ ه ش.
  5.   امام سجاد(علیه السلام)، صحیفه سجادیه، دفتر نشر الهادی، قم، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
  6.    بحارالانوار،دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  7.  بروجردی حسین، جامع الاحادیث شیعه، فرهنگ سبز، تهران، ۱۳۸۲ ه ش
  8.  پاینده، ابوالقاسم ، نهج الفصاحه، دنیای دانش، تهران، ۱۳۸۲ ه ش.
  9. دستغیب،عبد الحسین، گناهان کبیره، جامعه مدرسین، قم، ۱۳۸۸ ه ش.
  10.  راغب اصفهانی، مفردات فی الفاظ القرآن، دار الشامیه، بیروت، ۱۴۰۴ ه ق
  11.  طبرسی، فضل بن حسن ، ترجمه تفسیر مجمع البیان، فراهانی، تهران، چاپ اول، ۱۴۱۴ ه ق
  12. قرآن کریم
  13. متقی هندی ،علاء الدین علی بن حسام، کنز العمال، بیروت، 1403 ھ۔  
  14. مجلسی، محمد باقر، امام شناسی، سرور، قم، ۱۳۸۴ ه ش.
  15. نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ، مؤسسه آل البیت علیهم السلام ، قم، چاپ اول، ۱۴۰۸ق.

 

 

 

18تحف العقول، ص ۴۴؛ کشف الغُمّہ، ص ۲۴۳؛ بحارالأنوار، ج ۷۲، ص ۸۰٫۱۰۷ – بحارالأنوار، ج ۷۴، ص ۴۵٫

19نہج الفصاحہ، ح ۱۰۸۶٫

[3] میزان الحکمہ، باب الاحسان الی الوالدین؛ بحارالأنوار، ج ۷۱، ص ۸۱٫۱۱۱ – بحارالأنوار، ج ۷۴، ص ۸۴٫۱۱۲ – أنوار النعمانیہ، ج ۳، ص ۸۵ (نور فی عقوق الوالدین و قطع رحم

[4] بحار الانوار، ج 74، ص 84

[5] ایضا

[6] ایضا، ص81

[7] بحار الانوار، ج 74، ص 75.

[8] ایضا، ج ۷۱، ص ۵۶؛ اصول کافی، ج ۲، ص ۱۶۲٫

[9] ایضا، ج ۷۱، ص ۶۵٫

[10] ایضا

[11] ایضا

[12] ایضا

[13] ایضا، ص80

[14] ایضا

[15] ایضا، ص81

[16]   ایضا،ص86

[17]   کشف الاسرار وعدہ الابرار، ج ۵، ص ۵۴۲٫

35دستغیب، عبد الحسین، گناہان کبیرہ،ج1، ص118

[19] مستدرک، باب نکاح،باب75

[20] ایضا

[21] ایضا

[22] ایضا

[23] دستغیب، عبد الحسین، گناہان کبیرہ،ج1، ص118۔

[24] ایضا

[25] ایضا

43بحار الانوار، ج 74، ص 79

44 ایضا، ج 74، ص 79

[28] بحار الانوار، ج 74، ص 46.

[29] ایضا، ج 74، ص 56.

[30] ایضا، ج 74، ص 72.

[31] کنز العمال، ج 16، ص 468.

[32] بحار الانوار، ج 74، ص 62.

[33] صول کافی، ج 4، ص 50.

[34] بحار الانوار، ج 74، ص 82.

[35] اصول کافی، ج 4، ص 50

[36] بحار الانوار، ج 74، ص 64.

[37] ایضا، ج 74، ص 64.

[38] عنکبوت/8

[39]  شہید دستغیب، گناہان کبیرہ، ج 1، ص130۔

[40] سورہ لقمان؛ آیہ 15

[41]  علّامہ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ج 16، ص328۔

[42]  شہید دستغیب، گناہان کبیرہ، ج 1، ص132۔

  • محمد رضا

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی