قرآن و معارف

قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کی اطاعت 1

جمعه, ۱۶ خرداد ۱۳۹۹، ۱۰:۴۵ ق.ظ

قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کی اطاعت

   

 تحقیق کا خلاصہ

 بندوں میں سب سے مقدم حق، والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔یہی والدین  در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کا وجود والدین کے مرہون منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تلقین کی ہے۔ نیز جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی۔ اسی طرح محمد و آل محمد(علیھم السلام) کے فرامین   بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتٰی الامکان سعی کی، اس طرح بڑھاپے میں بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لئے اعزاز قرار دیں، اپنے گھر میں  ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں۔

 افسوس ناک صورت حال یہ ہے  کہ موجودہ دورمیں معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہے اور مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے روز والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب ایک معمول بن چکاہے۔ اسی لئے اس تحقیق میں کوشش کی گئی ہے کہ والدین کی اطاعت سے متعلق احکام خداوندی  اور معصومین (علیھم السلام) کے فرمودات ، والدین کی اطاعت کے دنیوی و اخروی فوائد،والدین کی نافرمانی کے دنیوی اور اخروی  نقصانات اولاد کے فرائض   اس کے علاوہ والدین کے حقوق سے متعلق چند فقہی مسائل وغیرہ  کو بیان کیا جائے تاکہ معاشرے میں والدین کے مقام کو  کما فی السابق آئندہ نسل کے لئے زندہ اور پایندہ رکھا جائے۔

کلیدی کلمات :والدین،اولاد،  اطاعت، قرآن و حدیث، عاق،  حسن سلوک اور وظائف ۔

 

لفظ اطاعت کا لغوی معنی

لفظ اطاعت "طوع" سے ہے اور طوع ،کرہ کی ضد  ہے کہ جس کا معنی حکم ماننا اور  اختیار کے ساتھ کسی کے سامنے   سرتسلیم خم کرنا  ہے۔[1]  کلمہ والدین، اسم فاعل  اور تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جس سے مراد ماں باپ ہیں۔ [2]

  والدین کی اطاعت کا اصطلاحی معنی

دینی تعلیمات کے  مطابق،  والدین کی اطاعت سےمراد،  اللہ تعالی کے اوامر کے ترک کرنے  اور اللہ تعالی کی حرام کی گئی  چیزوں کے انجام دینے کے علاوہ   زندگی کے تمام مسائل میں ماں باپ کا حکم ماننا ہے۔ اطاعت والدین کا متضاد عقوق والدین یعنی والدین کے حکم کی نافرمانی ہے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں والدین کی اطاعت  

والدین کے ساتھ نیکی اور اچھائی کےساتھ پیش آنے کا واضح ترین مصداق، ماں باپ کی اطاعت کرنا ہے۔ ہر فرزند کا وظیفہ بنتا  ہے کہ  پروردگاکی  رضا  کے حصول کے لئے والدین کی اطاعت کرے اور ان کی نافرمانی ، اللہ تعالی کے ناراض ہونے کا  موجب بنتی ہے۔ ماں باپ، ہر فرد  کی زندگی میں دلسوز ترین اور خیر خواہ ترین افرادہیں کہ جو اس کی بھلائی ، ترقی اور سربلندی کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس اولاد کو چاہیے کہ وہ  اللہ کی رضا  حصول  کے لئے ان کی فرمانبرداری کریں تاکہ اللہ تعالی اور  والدین کی خوشنودی  کے اسباب فراہم ہو سکیں۔  قرآن مجید میں اللہ تعالی کی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین  کی اطاعت اور تکریم کو بیان کیا گیا ہے، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کا حق بزرگترین  حقوق میں سے ہے  اور ہر چیز پر مقدم ہے۔

اللہ تعالی، والدین  کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ہے:   «وَ وَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ،﴿۱۴﴾ وَ إِنْ جَاهَدَاکَ عَلَى أَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛﴿15 [3] اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

صاحب مجمع البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وَ وَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا ۔ یہاں پر چونکہ خداتعالی نے اپنی نعمتوں کے شکر  کے بجا لانے  کا امر فرمایا ہے، اس لئے اشارہ کے ساتھ اس بات کا  تذکر دیتا ہے کہ  ہر منعم کا شکر واجب  اور لازم ہے ، اسی وجہ سے ماں باپ( اپنے فرزند  پراحسان کرتے ہیں) والدین کا ذکر کیا ہے  اور ہمارے پر واجب کیا ہے کہ والدین کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ سلوک کریں۔ اللہ تعالی نے اپنی شکر گذاری کے بعد والدین کی شکر گزاری کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم،  انسان کا خالق ہے اور والدین اس انسان کی خلقت  اور حفاظت کا  وسیلہ ہیں۔ [4]

قرآنِ مجید میں  ایک اور جگہ پر خدا تعالی فرماتا ہے:

وَٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِ‌کُوابِهِۦ شَیْـًٔا ۖ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَیْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْیَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰکِینِ وَٱلْجَارِ‌ ذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْجَارِ‌ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِیلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَـٰنُکُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالًا فَخُورً‌ا.[5]

''اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور پاس رہنے والے پڑوسی کے ساتھ اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور مسافر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ ہیں ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوپسند نہیں کرتا ہے جواپنے کو بڑا سمجھتے اور شیخی مارتے ہوں ۔'' اس آیت میں خدا تعالی نے اپنی عبادت  کے بیان کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دے کر والدین کے حقوق  اور عظمت کو واضح کر دیا ہے۔

سورہ بقرہ میں خدا تعالی  انفاق کے بارے میں فرماتا ہے :

یسْـَٔلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْرٍ‌ۢ فَلِلْوَ‌ٰلِدَیْنِ وَٱلْأَقْرَ‌بِینَ وَٱلْیَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰکِینِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِیلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَیْر فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِیمٌ۔[6]

''لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپؐ فرما دیں کہ جو کچھ مال تم کو خرچ کرنا ہو تو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا، محتاجوں اور مسافر کااور جو نیک کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔'' آیۃ مذکورہ میں خالق کائنات نے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ انفاق کا مستحق  والدین کو قرار دیا ہے۔

ایک مقام پر والدین کو اُف تک کہنے سے اور جھڑکنے سے منع فرمایا، ارشادِ ربانی ہے:

وَقَضَىٰ رَ‌بُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِیَّاهُ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَیْنِ إِحْسَـٰنًا ۚ إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ ٱلْکِبَرَ‌ أَحَدُهُمَآ أَوْ کِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا کَرِ‌یمًا ﴿٢٣﴾ وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّ‌حْمَةِ وَقُل رَّ‌بِّ ٱرْ‌حَمْهُمَا کَمَا رَ‌بَّیَانِى صَغِیرً‌ا ۔[7]

''اور تیرے ربّ نے حکم دیا کہ تم صرف اس کی ہی عبادت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف نہ کہو (یعنی 'ہوں 'بھی مت کرنا) اورنہ ہی ان کوجھڑکنا اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت و محبت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرما جیسے اُنہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی۔''

 

 

اس کے علاوہ قرآن نے تمام انبیاے کرام کے پیغامِ رسالت میں والدین کی برتر حیثیت کو بیان کیا ہے اور مطلق احکام کی صورت میں بھی والدین کو توحید کے بعد سب سے اونچا درجہ دیا ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَ‌ٰٓ‌ءِیلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَیْنِ إِحْسَانًا۔[8]

''اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے قول و قرار لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرنا اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت کرنا۔''

قرآن مجید نے والدین سے حسنِ سلوک کا نہ صرف حکم الٰہی بیان کیاہے بلکہ حسن سلوک کے لیے عقلی دلیل بھی مہیا کی ہے:

وَوَصَّیْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَ‌ٰلِدَیْهِ إِحْسَـٰنًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ کُرْ‌هًا وَوَضَعَتْهُ کُرْ‌هًا ۖ وَحَمْلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهْرً‌ا ۚ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَبَلَغَ أَرْ‌بَعِینَ سَنَةً قَالَ رَ‌بِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْکُرَ‌ نِعْمَتَکَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَ‌ٰلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْ‌ضَىٰهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّ‌یَّتِىٓ ۖ إِنِّى تُبْتُ إِلَیْکَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِینَ۔[9]

'' اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیاہے۔ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اوربڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے)یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس برس کو پہنچتا ہے تو کہتا ہے: اے میرے پروردگار! مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی نعمتوں کاشکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطافرمائی ہیں اور میں نیک کام کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے لیے خیر پیداکردیجئے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتاہوں اور میں فرمانبردار ہوں ۔''

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے والدین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا خصوصی ذکر کیا: وَبَرًّ‌ۢا بِوَ‌ٰلِدَیْهِ وَلَمْ یَکُن جَبَّارً‌ا عَصِیًّا۔[10]

''اور وہ اپنے والدین کے خدمت گزار تھے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے نہ تھے۔''

عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بچپن میں جو گفتگو کی تھی، اس میں بھی والدہ سے حسنِ سلوک کا خاص تذکرہ ہے:وَجَعَلَنِى مُبَارَ‌کًا أَیْنَ مَا کُنتُ وَأَوْصَـٰنِى بِٱلصَّلَو‌ٰةِ وَٱلزَّکَو‌ٰةِ مَا دُمْتُ حَیًّا؛ وَبَرًّ‌ۢا بِوَ‌ٰلِدَتِى وَلَمْ یَجْعَلْنِى جَبَّارً‌ۭا شَقِیًّا۔[11]

''اورمجھ کو برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا جب تک میں دنیا میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والا ہوں اور مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا۔''

روایات معصومین (ع) کی روشنی میں والدین کی اطاعت

آئمہ معصومین(علیهم السلام) نے بہت سی روایات میں مسلمانوں کو  اپنے والدین کی اطاعت اور رحیمانہ سلوک کی سفارش کی ہے   اور امت  مسلمہ کو اس بات کی تعلیم دی کہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری اپنے لئے لازم کرلو۔ اس ضمن میں   چند  احادیث  بہ طور مثال ذکر کرتے ہیں:

  1. رسول خدا ( صلّی الله علیہ و آلہ ) نے فرمایا:

"العبدُ المطیعُ لوالدیهِ و لرّبه فی أعلی علّیین"وہ شخص کہ  جو اپنے خدا اور والدین کا مطیع ہو گا ، (قیامت کے دن) اس کا مقام اعلی علیین میں ہوگا۔ [12]

  1. امام علی ( علیہ السّلام ) نے  فر مایا:

"حقّ الوالِدِ أن یُطیعَهُ فی کلّ شئٍ الاّ فی معصیهِ اللهِ سبحانَهُ"اولاد پر والدین کا حق ہے یہ کہ معصیت خدا کے علاوہ تمام موارد میں ان کی اطاعت کریں۔ [13]

  1. عَنِ النَّبِیِّ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) أَنَّهُ قَالَ: ثَلَاثَهٌ لَا یَحْجُبُونَ عَنِ النَّارِ الْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَ الْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَ الْمَانُّ بِعَطَائِهِ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ قَالَ یَأْمُرَانِ فَلَا یُطِیعُهُمَا؛ [14] رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا:

 تین قسم کے لوگ جہنم سے نہیں بچ سکتے 1۔ والدین کے عاق 2۔ دائمی شراب خور 3۔ صدقہ دے کر جتلانے والا، کہا گیا : یارسول اللہ! عاق والدین سے کیا مراد ہے؟ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا: والدین اپنے فرزندکو کسی کام کرنے کا حکم دیں اور وہ ان کی اطاعت نہ کرے۔

قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ فَقِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَهِ فَقَالَ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَیَّامَ الدُّنْیَا قَامَ بَیْنَ یَدَیْهَا مَا عَدَلَ ذَلِکَ یَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا؛

پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)سے کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ! باپ کا کیا حق ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا:جب تک تم زندہ ہو اس کی اطاعت کرو۔ پھر سؤال کیا: ماں کا کیا حق ہے؟حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا: ھیہات، ھیہات ؛ بہت دور ہے ، بہت دور ہے(کہ اس کا کوئی حق ادا کرے! پھر فرمایا: اگر کسی شخص کی عمر بیابان  اور ریگستان کے ذروں اور  بارش کے قطروں  کے برابر ہو اور وہ اپنی ماں کی خدمت کرتا رہے  تب بھی یہ تمام  خدمت،  حمل کے دوران ایک دن کی اٹھائی گئی تکلیف کے برابر  نہیں ہو سکتی۔[15]

  1. امام سجاد (ع) نے صحیفہ سجادیہ کی 24ویں دعا کی ابتدا  میں درود وسلام کے بعد اپنے ماں باپ  کے حق میں دلنشین اور بہت پیارے انداز میں  اللہ تعالی سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ان کا مطیع اور فرمانبردار بنادے:  : «أللَّهُمَّ اجْعَلْنی أهَابَهُما هَیبَهَ السُّلْطانِ العَسُوفِ وَ أبوَّهُمَا بِوَّ الأمَّ الرَّؤوفِ، وَاجعَلْ طَاعَتِی لِوالدَی وَ بِرّی بِهِما أقرَّلعَینی مِنْ وَقدهِ الوَسنانِ، وَأثْلَجَ لِصَدری مِنْ شَوبَهٍ الظَّمْآنِ حَتَّی أوثِرَ عَلَی هَوای هَواهُمَا، وَأقدَّمَ عَلَی رضای رَضاهُمَا، وَأسْتَکثَرَ برَّبَهُمَا بِی وَ إنْ قَلَّ وَأسْتَقِلَّ بِرّی بِهِما وَ إنْ کثُرَ؛

خدایا! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ماں باپ سے اس طرح ڈروں جیسے کسی جابر سلطان سے ڈرا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اس طرح مہربانی کروں جس طرح ایک مہر بان ماں اپنی اولاد کے ساتھ مہربانی کرتی ہے۔ اور پھر میری اس اطاعت کو اور میرے اس نیک برتاؤ کو میری آنکھوں کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار بنا دے جتنا خواب آلود آنکھوں میں نیند کا خمار خوشگوار ہوتا ہے اور اس سے زیادہ باعث سکون بنا دے جتنا  پیاسے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ باعث سکون بنتا ہے تاکہ میں اپنی خواہش کو ان کی خواہش پر مقدم کروں اور ان کی رضا  کو اپنی رضا پر ترجیح دوں۔ ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات کو زیادہ سمجھوں، چاہے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہوں  اور اپنی خدمات کو قلیل تصور کروں چاہے وہ کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔ [16]

  1. حضرت امام زین العابدین(علیه السلام)ایک اور دعا میں خداوند متعال سے درخواست کرتے  ہیں کہ ان کی اولاد کو اپنے والدین کا مطیع قرار دے دے اور فرمایا: "وَ اجْعَلْهُمْ لِی مُحِبِّینَ، وَ عَلَیَّ حَدِبِینَ مُقْبِلِینَ مُسْتَقِیمِینَ لِی، مُطِیعِینَ ، غَیْرَ عَاصِینَ وَ لَا عَاقِّینَ وَ لَا مُخَالِفِینَ وَ لَا خَاطِئِین"

 ترجمہ: خدایا! انہیں میرا  چاہنے والا اور میرے حال پر مہربانی کرنے والا اور میری طرف توجہ کرنے والا اور میرے حق میں سیدھا اور اطاعت گذار بنا دے ، جہاں نہ معصیت کریں نہ عاق ہوں ، نہ مخالفت کریں اور غلطی کریں۔[17]

 
 

[1]   راغب اصفہانی، مفردات فی الفاظ القرآن، ج2، ص513

[2] ایضا، ج4، ص486

[3]  لقمان/14 ـ 15۔

[4]   طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسیر مجمع البیان، ج 19، ص172۔

5سورة النساء/ 36

۶سورة البقرة/215

۷ سورة اسراء/24

۸سورة البقرة/83

۹سورة الاحقاف/15

[10]سورة المریم/14

[11] سورة المریم/31 و 32

[12] ابوالقاسم پایندہ، نہج الفصاحہ، ص578

[13] سید رضی، نہج البلاغہ، حکمت ۳۳۹

[14] آیت اللہ بروجردی، جامع الاحادیث شیعہ، ج26، ص920

[15] نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص182

[16] محمدی ری شہری ، میزان الحکمہ، ج 10، ص 718

[17] امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفہ سجادیہ، ص122

  • محمد رضا

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی